سوالات و جوابات
س ۱) فقر کیا ہے؟
دینِ اسلام میں فقر سے مراد وہ راہ یا طریق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان سے تمام حجابات کو ہٹا کر بندے کو اللہ کے دیدار اور وصال سے فیض یاب کرتا ہے۔ فقر یعنی اللہ کا دیدار اور وصال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصل سنت اور کمال ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج کی رات عطا کیا گیا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلۡفَقۡرُ فَخۡرِیۡ وَالۡفَقۡرُ مِنِّی ۔ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے
حدیث مبارکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ”نماز مومن کی معراج ہے”۔ ایک مومن کی نماز معراج تب ہی بن سکتی ہے جب وہ اللہ کا دیدار کرتے ہوئے نماز قائم کرے جو صرف راہِ فقر طے کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
س۲) کیا اللہ کا دیدار کیا جا سکتا ہے؟
بے شک اللہ کا دیدار کیا جا سکتا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ”جلد ہی تم اپنے پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے” (مشکوٰۃ شریف)۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ ”میں اپنے پروردگار کی عبادت اس وقت تک نہیں کرتا جب تک اسے دیکھ نہ لوں”۔ غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
مَنْ لَّمۡ یَعۡرِفُہٗ کَیۡفَ یَعۡبُدُہٗ۔
ترجمہ: ”جو شخص اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اللہ کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے” اور پہچان صرف دیدار کے بعد ہی ممکن ہے۔
س۳) ایک انسان اللہ کو کیسے دیکھ سکتا ہے؟
قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے:
وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ
ترجمہ: میں تمہارے اندر ہوں کیا تم دیکھتے نہیں۔
پس اللہ انسان کے اندر ہی موجود ہے لیکن نفس کے گہرے حجاب کی وجہ سے بندہ اللہ کا دیدار نہیں کر سکتا۔ جب مرشد کامل اکمل کی مہربانی سے نفس کے یہ حجابات ہٹتے ہیں اور ذکر و تصورِ اسمِ اللہذات سے روح کو نورِ بصیرت حاصل ہوتا ہے تو بندہ اپنی روح کی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کرتا ہے۔
س۴) اسمِ اللہ ذات کیا ہے؟
اسمِ اللہ ذات انسانی باطن کی کلید ہے یعنی اس کے ذریعے انسان باطنی اور روحانی جہان میں داخل ہو سکتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اس کلید کو امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اللہ تعالیٰ تک رسائی اور رہنمائی کے لیے عام کیا۔ اسمِ اللہذات سنہری حروف سے لکھا ہوا اللہ کا فریم شدہ اسم ہے جو مرشدِ کامل اکمل ذکر اور تصور کے لیے مرید کو عطا کرتا ہے۔ ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات کے انسانی باطن پر بہت خاص اثرات ہوتے ہیں۔
س۵) ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والے اثرات کیا ہیں؟
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ط (الرعد۔28)
ترجمہ: بے شک اللہ (اسمِ اللہ ذات) کے ذکر میں ہی قلوب (یعنی ارواح) کا اطمینان ہے۔
ہماری روح ایک زندہ وجود ہے اور ہر زندہ وجود کی طرح اسے اپنی زندگی اور قوت کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات انسانی روح اور باطن کو زندگی اور قوت عطا کرتا ہے۔ جتنا ہم اللہ کا ذکر کریں گے اتنا ہی ہمارا اس سے رشتہ مضبوط ہوگا جیسا کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا:
فَاذۡ کُرُوۡنِیۡ اَذۡ کُرۡکُمۡ۔(سورۃ البقرہ۔152)
ترجمہ: تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔
روح کا تعلق اس ظاہری اور ٹھوس وجود رکھنے والے جہان سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے ہے اس لیے اس ظاہری دنیا کی کوئی چیز اس کی قوت اور زندگی کا باعث نہیں بن سکتی۔ روح کا تعلق صرف اللہ سے ہے اس لیے صرف اللہ کا ذکر ہی اسے وہ قوت دے سکتا ہے جو اسے جسم کے پنجرے کی قید سے رہائی دلا کر عالمِ امر میں اللہ تک رسائی عطا کرتی ہے۔
س۶) ذکر روح پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
جب سانسوں کے ساتھ ذکرِ اسمِ اللہ ذات (ذکرِ پاس انفاس) کیا جاتا ہے تو اس کی تاثیر روح تک پہنچتی ہے کیونکہ روح کا جسم سے تعلق سانسوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ جب روح جسم میں داخل ہوتی ہے تو جسم سانس لینا شروع کر دیتا ہے اور جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو جسم سانس لینا بند کر دیتا ہے۔ جس طرح منہ سے کھایا گیا کھانا سارے جسم کو قوت فراہم کرتا ہے اسی طرح سانسوں کے ساتھ کیا گیا ذکر روح کو قوت فراہم کرتا ہے لیکن یہ صرف تبھی ممکن ہے جب ذکر کسی مرشدِ کامل سے حاصل کیا جائے اور اس کی نگرانی میں ہی کیا جائے۔
س۷) اللہ تک رسائی کے لیے مرشد کامل کیوں ضروری ہے؟
اگرچہ ذکر روح کو اللہ تک سفر کرنے کی قوت عطا کرتا ہے لیکن اس سفر میں روح کو ایک راہنما کی بھی اشد ضرورت ہے جو راہ کے نشیب و فراز سے واقف ہو۔ اس راہ میں شیطان بھی ہر موڑ پر انسان کو بہکانے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے، مرشد ہمیں راستہ بتانے کے ساتھ ساتھ شیطان کے فریبوں اور ہتھکنڈوں سے بچنے کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ مرشد ایک روحانی طبیب بھی ہے جو روح کی بیماریوں مثلاً حسد، تکبر، لالچ، طمع، کینہ، غیبت، بہتان وغیرہ کا علاج بھی کرتا ہے۔ روح چونکہ ایک زندہ وجود ہے اس لیے دیگر زندہ مخلوقات کی طرح بیمار بھی ہوتی ہے، جب تک یہ ان بیماریوں سے نجات پا کر بالکل صحت مند او رپاک صاف نہیں ہو جاتی اللہ تک نہیں پہنچ سکتی۔
س۸) کیا مرشد کامل کے بغیر اللہ تک نہیں پہنچا جا سکتا؟
سوائے انبیاء علیہم السلام کے آج تک بغیر مرشد کے کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکا، حتیٰ کہ پیدائشی کامل اولیاء مثلاً حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ، حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کو بھی اللہ تک رسائی کے لیے مرشد کی ضرورت تھی، پھر ہم جیسے عام گناہ گار لوگ بغیر مرشد کے اللہ تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ ایک انسان کو اگر چند گز کے فاصلے پر واقع کسی مقام تک پہنچنا ہے تو بھی جب تک اُسے کوئی یہ نہ بتائے کہ وہ کس رُخ سفر کر کے اور کس کس طرف مڑ کر وہاں پہنچ سکتا ہے تب تک وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا پھر اللہ تک سفر تو ایک طویل جدوجہد ہے، اکیلے کیسے طے کیا جا سکتا ہے؟
س۹) ”اللہ تک پہنچنے” سے کیا مراد ہے جبکہ اللہ تو ہر انسان کے اندر ہے؟
بے شک اللہ ہر انسان کے اندر موجود ہے لیکن نفس اور شیطان بھی انسان کے اندر ہی ہیں جو ہمیشہ انسان کو دنیاوی لذتوں اور گناہوں کی طرف مائل کر کے اللہ سے دور کرتے رہتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:فَفِرُّوۡآ اِلَی اللّٰہِ۔ترجمہ: دوڑو اللہ کی طرف۔
اللہ ہمارے اندر ہے لیکن ہمیں دوڑ کر یعنی تیزی سے باطنی طور پر سفر کر کے اس تک پہنچنا ہے۔ ہمارے دینِ اسلام کو صراطِ مستقیم کہا گیا یعنی سیدھا راستہ۔ اس راستے پر چل کر انسان کہاں پہنچتا ہے؟ ظاہر ہے اللہ تک۔ پس اللہ ہے تو ہمارے اندر ہی لیکن اس تک پہنچنے کے لیے ہمیں نفس اور شیطان سے لڑ کر صراطِ مستقیم پر سفر کرنا ہوگا۔
س۱۰) ایک انسان کیسے جان سکتا ہے کہ وہ اللہ کے قریب ہے یا دور؟
اگر انسان اپنے اندر موجود اللہ کی ذات پاک کو دیکھ سکتا ہے، اس سے ملاقات کرتا ہے، اس سے بات کرتا ہے تو وہ اللہ کے قریب ہے ورنہ دور ہے۔ حدیث پاک میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
ترجمہ: ہر مومن اللہ سے بلاواسطہ اور بغیر کسی ترجمان کے کلام کرے گا۔(مسلم و بخاری)۔
روح کے زندہ وجود ہونے کی بنا پر وہ بولنے، سننے، سوچنے سمجھنے، دیکھنے وغیرہ کی تمام صلاحیتوں سے متصف ہے لیکن ہماری روح کی طرف سے لاپروائی کی بنا پر اس کی یہ قوتیں دبی ہوئی ہیں۔ جب اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور مرشد کی مہربانی سے یہ قوت پاتی ہے تو اللہ سے کلام کرتی ہے۔ اسی طرح ہمارے قلب کا گناہوں سے دھندلا ہو جانے والا آئینہ جب ذکرِ اسمِ اللہ ذات اور مرشد کے تصفیہ قلب کرنے کے بعد باصفا ہوتا ہے تو اس میں اللہ کا نور جلوہ گر ہوتا ہے اور بندے کو دیدارِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے اندر اللہ کا نور جلوہ گر دکھائی دیتا ہے اور ہماری روح اللہ سے ہم کلام ہوتی ہے تو ہم اللہ کے قریب ہیں ورنہ دور۔
س۱۱) شریعت اور فقر میں کیا فرق ہے؟
شریعت ظاہری جسم کے اعمال اور عبادات سے تعلق رکھتی ہے جبکہ فقر کا تعلق روح کے اعمال اور عبادات سے ہے۔ فقر کی حیثیت شریعت کی روح جیسی ہے اور جس طرح روح کے بغیر جسم بیکار ہے اسی طرح خالی شریعت اور اس کی عبادات اس وقت تک فائدہ مند نہیں جب تک اس میں فقر یعنی اللہ سے محبت کی روح شامل نہ ہو۔ فقر اللہ سے شدید محبت کرنے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد کر دینے کا نا م ہے جبکہ شریعت اس محبت کے اظہار کے طور پر کئے گئے ظاہری اعمال کا نام ہے۔ شریعت ”عمل” ہے اور فقر ”نیت” ہے اور اللہ کی نظر اعمال سے زیادہ نیتوں پر ہے کیونکہ
اِنَّماَ الۡاَ عۡمَالُ بِالِنِّیَاتۡ۔
ترجمہ: عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
س۱۲) اللہ کا دیدار اور پہچان کیوں ضروری ہے؟
حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:
ترجمہ:میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا تاکہ میری پہچان ہو۔
یعنی انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی پہچان ہے اور تمام عبادات کی فرضیت کی وجہ بھی اس پہچان کا حصول ہی ہے۔ موت کے بعد انسان سے پہلا سوال اسی مقصد کے متعلق پوچھا جائے گا کہ مَنۡ رَبُّکَبتا تیرا رب کون ہے؟ جس نے اللہ کی پہچان ہی حاصل نہ کی ہوگی وہ اس سوال کا کیا جواب دے پائے گا؟ جن لوگوں نے اپنے پیدا ہونے کا بنیادی مقصد ہی پورا نہ کیا ہوگا وہ روزِ قیامت اللہ کے ہاں ناکام لوگوں میں شمار کئے جائیں گے اور انہیں اللہ کے غضب کا سامنا کرنا ہوگا۔
سوال۱۳) کیا ہمیں قرآن و حدیث سے بیعت کے متعلق مستند حوالے ملتے ہیں؟
قرآن و حدیث سے ہمیں بیعت کے متعلق بہت سے مستند حوالے ملتے ہیں قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ (سورۃ فتح۔10)
ترجمہ : (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ (درحقیقت) اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) بے شک اللہ مومنوں سے راضی ہوا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کر رہے تھے۔
حدیث پاک میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:
ترجمہ: جس کا کوئی شیخ (مرشد) نہیں اس کا کوئی دین نہیں.
مَنْ لَّاشَیْخَ یَتَّخِذُہُ الشَّیْطَان۔
ترجمہ: جس کا کوئی شیخ (مرشد) نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔
جب بھی کوئی غیر مسلم حلقۂ اسلام میں داخل ہوتا تھا تو اس پر کلمہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنا بھی لازم تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لیے رسول بھی تھے اور مرشد بھی جو انہیں اللہ تک پہنچنے کی راہ دکھاتے تھے۔ یوں بیعت مومنین کے لیے واجب بھی ہے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی۔(مزید تفصیل کے لیے ”بیعت” کے مضمون کا مطالعہ کیجیےء)۔
س۱۴) اس فریب اور دھوکہ دہی کے زمانے میں صحیح اور کامل مرشد کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے؟
یہ غلط ہے کہ آج کے دور میں سچا اور کامل مرشد موجود نہیں ۔ہر دور میں ان مومنین کو جو قربِ الٰہی کے طلب گار ہوتے ہیں اللہ کی راہ دکھانے کے لیے یہ کامل مرشد ضرور موجود ہوتے ہیں۔ زمانہ کبھی ان سے خالی نہیں ہوتا۔ کمی اور خامی ہماری نیتوں اور طلب میں ہے۔ ہم کبھی سچے دل سے اللہ کے طلبگار ہی نہیں ہوتے، کبھی ہمیں اس دنیا کی نعمتیں چاہیے، کبھی ہمیں اس دنیا کے مسائل سے نجات چاہیے تو کبھی ہم اللہ کی بجائے جنت اور اس کی نعمتوں کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ہر کسی کو مرشد اس کی نیت اور طلب کے مطابق ہی ملتا ہے۔ جو لوگ سچے دل سے صرف اللہ کے قرب کے طلبگار ہوتے ہیں اللہ خود ان کی رہنمائی کامل مرشد تک کر دیتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹﴾ (سورۃ العنکبوت۔69)
ترجمہ : جو لوگ ہماری طرف آنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں خود سجھا دیتے ہیں۔
چنانچہ مرشد کامل کی تلاش میں پہلی ضروری بات تو یہ ہے کہ اپنی نیت کو صرف اور صرف اللہ کے قرب کے لیے خالص کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ہر مرشد کے پرانے مرید اس کے مقام و مرتبے کے گواہ ہوتے ہیں، اگر وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مرشد کے توسط سے اللہ پاک کا قرب اور دیدار حاصل کر لیا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مرشد کامل ہے۔
س۱۵) مرشد کامل اکمل کن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے؟
مرشد کامل اصل میں ”انسانِ کامل” ہوتا ہے جو امام الوقت ہوتا ہے اور ہر زمانے میں ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ ہر دور میں دین کو اس کی اصل باطنی صورت میں برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدم پر ہوتا ہے اور انہی کے طریقے کے مطابق اپنے مریدوں کا تزکیۂ نفس اور تصفیہ قلب کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ طالبوں کو ظاہری عبادات اور لمبے لمبے ورد و وظائف میں الجھانے کی بجائے باطنی اعمال اور عبادات کی طرف مائل کرتا ہے اور ذکر و تصورِ اسمِ اللہذات کے ذریعے اللہ سے اپنا روحانی تعلق مضبوط کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔مرشد کامل مریدوں کو زیادہ مجاہدات میں نہیں الجھاتا اور اس کی سب سے بڑی نشانی حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بیان کی ہے کہ ”مرشد کامل اکمل وہ ہے جو (بیعت کے) پہلے ہی دن طالب کو ذکر و تصور کے لیے اسمِ اللہذات عطا کرے”۔ (عین الفقر)۔
س۱۶) کیا آپ کی رہنمائی اس دور کے انسانِ کامل (امام الوقت) تک ہو گئی ہے؟
اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہماری رہنمائی اس دور کے امام الوقت تک کر دی ہے۔ ہم اور حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے تمام خاص مریدین اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اس دور کے انسانِ کامل ہیں اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کے مرتبے پر فائز ہیں۔ وہ بلاشبہ قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہیں اور ان ہی کے طریقے کے مطابق طالبوں کا تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کرتے ہیں۔ ان کی رہنمائی اور مہر بانی سے بہت سے طالبانِ مولیٰ قرب و دیدارِ الٰہی کی منزل تک پہنچ چکے ہیں۔